محکم جمہوریت کےلئے عورتوں کی بااختیاری اور اُن کی قیادت

Pakistan: نیا علم ، نئی خود اعتمادی: ذاتی انتخاب میں آئی وسعت

Published Date: 
Monday, November 10, 2014
Source: 
Shirkat Gah

پاکستان میں  کئی ایسی خواتین ہیں  جن کے زندگی میں  اختیارات اور مواقعوں  کو دبا دیا گیا ہے،ان خواتین کا شرکت گاہ- ویمنز ریسورس سنٹر کے ساتھ رابطے میں آنازندگی کو بدلنے کا تجربہ ہو سکتا ہے۔آوٹ ریچ سرگرمیوں ، تربیتوں  میں  شرکت کی بدولت اورخواتین کے لیے دوستانہ مراکز قائم کرکے شرکت گاہ نے خواتین کو ان کے حالات اور حقوق کے حوالے سے نئی سمجھ دی ہے ،شرکت گاہ نے خواتین کو ان کے گرد ہونے والی ناانصافیوں  کو چیلنج کرنے کے لیے انہیں  با اختیار بھی بنایا ہے۔یہاں  تین ایسی ہی خواتین کی کہانیاں  بیان کی جارہی ہیں کہ شرکت گاہ نے ان کے لیے کیا ہے۔ 

 

نئی خود اعتمادی اور خودمختاری: سمیرا پروین ، پنجاب کے علاقے بھکر کی ویلڈ لیڈر:

 

میرے ذہن میں  اپنے حقوق سے متعلق کبھی کوئی خیال نہ آیا تھا۔میری زندگی ویسے ہی گزر رہی تھی جیسے میرا شوہر چاہتا تھا۔ مگر جب میں  نے ویلڈ کی تربیتی مشقوں  میں  شرکت کی تومجھے پتہ چلا کہ عورتوں  کے حقوق اور مقام ہوتا ہے اور وہ آگے بڑھ سکتی ہیں  اور کامیاب بھی ہو سکتی ہیں ۔ اس کے بعد اب میں  خود کو صرف میرے شوہر پر انحصار کرنے والی عورت تصور نہیں  کرتی

 

اپنی ملازمت: پنجاب کے علاقے بھکر کی ویلڈ لیڈر شازیہ منظور

 

’’میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں  ملازمت کرتی۔ مگر گھرکے کام کاج اور بچوں  کی دیکھ بھال کے بعد میرے پاس کوئی وقت ہی نہیں  تھا۔ زندگی بے معنی اور یکسانیت کا شکار تھی۔ مگر جب میں  ’سجل سویرا‘(پنجاب میں  جامنی عورت تحریک کا مقامی نام) کی ممبر بنی تومجھے ایک نیا اعتماد اور بااختیار ہونے کا احساس ملا۔ جس کے بعد میں  آسانی سے اپنے شوہر کو اپنے حقوق کے حوالے سے قائل کر سکتی تھی۔ جو کچھ میں  نے ویلڈ کی تربیتی مشقوں  سے سیکھا ، وہ میں  نے اپنے ارد گرد موجود عورتوں  کو بھی سکھایا۔ اب میرا اپنا دفتر ہے۔ میں  دایا کی تربیت لینے کے بعد دایا بن گئی۔ میں  اس شعور کے لیے خدا کی شکر ادا کرتی ہوں  جو مجھے شرکت گاہ کی جانب سے ملا۔ میں  اب بہت خوش ہوں  کیونکہ میرا ملازمت کا خواب سچ ہو چکا ہے  ‘‘

مساوات کا آغاز گھر سے ہوتا ہے: سوات کے علاقے مرغزار کی ویلڈ لیڈر رخسانہ کی داستان:

 

میری جب شادی ہوئی تو میں  14سال کی تھی اور اب میرے سات بچے ہیں ۔ پانچ بیٹیاں  اور دو بیٹے۔ کیونکہ میں  ایک غیر مراعات یافتہ شخصیت تھی اس لیے کبھی بھی اپنے بچوں  کے معاملات میں  زیادہ ملوث نہیں  رہی۔میں  اپنے بیٹوں  سے بچیوں  کے مقابلے میں  کہیں  اچھا سلوک روا رکھتی تھی۔ میں  سوچا کرتی تھی کہ بچیاں  کسی اور گھر کے لیے ہوتی ہیں ۔ اور ان کا کوئی فائدہ نہیں  ہوتا۔ جب میں  نے شرکت گاہ کے ساتھ ویلڈ کی تربیتی مشقوں  میں  حصہ لیا تو اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے بچوں  کے درمیان یہ امتیاز نہیں  رکھنا چاہیے۔ مجھے محسوس ہوا کہ بیٹیوں  کے ساتھ میرا رویہ غیر منصفانہ رہا ہے جبکہ وہ لڑکوں  کی نسبت میرے زیادہ کام آرہی تھیں ۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ناشتے میں  ، میں  صرف لڑکوں  کے لیے انڈے بنایا کرتی تھی مگر شرکت گاہ کے ساتھ تربیتی مشقوں  میں  شرکت کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اپنے اس رویے سے میں  پدری غلبے کے احساس کو تقویت دے رہی ہوں ۔ اب میں  پیسے بچا کر زیادہ انڈے خریدتی ہوں  اور جب پکاتی ہوں  تو پہلے اپنی بیٹیوں  کو دیتی ہوں