محکم جمہوریت کےلئے عورتوں کی بااختیاری اور اُن کی قیادت

International: بین الاقوامی:بچپن، کم عمری اور جبری شادیوں سے تحفظ اور خاتمہ… انسانی حقوق کی کونسل کا مشترکہ اعلامیہ

Published Date: 
Wednesday, June 25, 2014
Source: 
Shirkat Gah

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل، 26واں  اجلاس

بچپن، کم عمری اور جبری شادیوں  سے تحفظ اور خاتمہ کے حوالے سے اعلی سطحی پینل کا قیام

23جون 2014

 لڑکیاں  نہ کہ دلہنیں :بچپن کی شادیوں  کے خاتمے کے لیے عالمی پارٹنر شپ کے عنوان سے یہ زبانی بیان شرکت گاہ…ویمنز ریسورس سنٹر کی ایما پر لکشمی سندرم نے پڑھ کر سنایا۔

 

شکریہ جناب صدر!  شرکت گاہ ،ویمنرز ریسورس سنٹر ، گرلز ناٹ برائڈز،جو دنیا بھر کے 60ملکوں  کی 350سول سوسائٹی کی تنظیموں  کا اتحاد ہے، اس شراکت کوجو آج کی بحث اور OHCHR کی رپورٹ نمبر A/HRC/26/22 کی شکل میں  بچپن، کم عمری اور جبری شادیوں  سے تحفظ اور خاتمہ کے حوالے سے ہوئی اسے  خوش آمدید کہتی ہے۔

 جیسا کہ آج اس پینل نے مانا اور جیسا کہ انسانی حقوق کی کونسل کی قراردادA/HRC/RES/24/23میں  کہا گیا ہے کہ بچپن، کم عمری اور جبری شادیاں  لڑکیوں  کے متعدد حقوق کی خلاف ورزی ہیں ، ان حقوق میں  تشدد اور استحصال سے آزادی کا حق، تعلیم کا حق، مساوات کا حق، غیر امتیازی رویے، خود کو متاثر کرنے والے فیصلوں  میں  شرکت کا حق ، صحت بشمول جنسی و تولیدی صحت کا ممکنہ حد تک بہترین معیار حاصل کرنے کا حق شامل ہے۔ ہم اس رپورٹ اور اس کی سفارشات خاص طور پر بچے کی تعریف کے تعین اور کم عمری اور جبری شادیوں  کی شق کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ ہماری خواہش ہے کہ اس مسئلے کے حل کے حوالے سے ،خاص طور پر یونیورسل پیریاڈک ریویو پراسیس، معاہدوں  کی نگرانی کرنے والے اداروں  اور خصوصی پروسیجرز کے ذریعے انسانی حقوق کی کونسل اپنا کام جاری رکھے ۔اور ممبر ریاستوں  کو ٹھوس سفارشات دیتی رہے اور اس بات کو یقینی بنائے کے وہ انسانی حقوق جو بچپن کی شادیوں ، کم عمری کی شادیوں  اور جبری شادیوں  سے متعلق ہےں ،وہ نافذ ہوں۔

ہماری حکومتوں  سے بھی درخواست ہے کہ وہ قومی دستوری ڈھانچوں  کو عالمی انسانی حقوق کے معیارات سے ہم آہنگ کریں ۔ اسی پس منظر میں  ہم حکومتوں  سے کہتے ہیں  کہ وہ لڑکی اور لڑکے کی شادی کی کم از کم عمر 18سال کے قانون کو بنایا جائے ، نافذ کیا جائے اور اس کے بارے میں  عوامی شعور بیدار کیا جائے۔ اس میں  یہ بھی خیال رکھا جائے کہ ملکی قانون عالمی قانون سے ہم آہنگ ہو۔ بہت سے ملک جہاں  لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر 18سال طے ہے وہاں  بھی والدین کی مرضی کے ساتھ اس سے کم عمری میں  شادیاں  کی جا رہی ہیں ۔ تاہم اکثر معاملات میں  ایسا والدین یا سرپرستوں  کے جبر کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس لیے والدین کی رضامندی کو بچپن کی ، کم عمری کی اور جبری شادیوں  کے حوالے سے بہانے کے طور پر استعمال نہیں  ہونا چاہیے،مزید براں  جب ایک لڑکی شادی پر رضامند نظر آرہی ہو تو اسے منظوری کو امتیازی سماجی رسموں ، خاندان کے دبائو اور دوسرے آپشنز کی عدم موجودگی کے پس منظر میں  بھی دیکھنا چاہیے۔

بچپن کی اور جبری شادیاں  ایک طویل المعیاد منصوبہ ہے جس کے لیے جامع اور وزارتوں  سے لیکر سول سوسائٹی کی تنظیموں  اور متعلقہ فریقوں  کے ساتھ ملکر مربوط انداز میں  کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم حکومتوں  کو بتانا چاہتے ہیں  کہ وہ سول سوسائٹی کی تنظیموں  خاص طور پر کمیونٹی لیول کے گروپوں  اور مذہبی و سماجی قائدین کے اہم کردار کو سمجھیں  اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کے ساتھ ملکر کام کریں۔

اور آخر میں  ، یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ بچپن کی اور جبری شادیاں  صرف انسانی حقوق کی پامالی کا ہی مسئلہ نہیں  بلکہ ترقی کی راہ میں  بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں ۔انسانی حقوق کی کونسل کی رپورٹ (A/HRC/RES/24/23)جو پچھلے سال منظور ہوئی اس میں  یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ’جبری اور کم عمری کی شادیاں  صدی کے ترقیاتی اہداف اور معاشی و سماجی پائیدار ترقی کی راہ میں  ایک رکاوٹ ہیں  ، اس لیے ان کا خاتمہ پوسٹ 2015کے ترقیاتی ایجنڈے کے مباحث میں  یہ مسئلہ شامل ہوگا‘۔ اس لیے ہم تمام حکومتوں  سے اپیل کرتے ہیں  کہ وہ پوسٹ 2015ترقیاتی فریم ورک کے تناظر میں  بچپن کی اور جبری شادیوں  کی روک تھام کو ختم کرنے میں  تعاون کریں  ۔