محکم جمہوریت کےلئے عورتوں کی بااختیاری اور اُن کی قیادت

Gambia: گیمبیا:تانیثیتی سوچ

Published Date: 
Friday, June 20, 2014

آپ مجھے غیر دلکش، غیرشوخ اور سخت جاں  کہہ سکتے ہیں ، ٹھیک ہے، میں  ایک تانیثیتی لیڈر ہوں  اور مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں  ہے۔ میں  جب پیدا ہوئی تو اکیلی تھی۔ میں  ہمیشہ تنہا رہی ہوں ۔ مگر شاید وہ وقت آگیا ہے کہ میں  اپنا سر اٹھائوں  اور یہ احساس کروں  کہ اگر میں  نے اپنی شناخت کا دفاع نہ کیا تو میں  فنا ہو جائوں  گی۔ بطور عورت کے میرا وجود اور میری زندگی کا جوہر مٹ کر رہ جائے گا۔  

 

تین ماہ پہلے میں  نے اپنی ایکWELDD-WLUML ساتھی کے ہمراہ تھنک ینگ ویمن  کی نمائندگی تانیثیتی ورکشاپ میں  کی ، اس واقعے نے میری آنکھیں  کھول دیں  اور میرے اس سفر کا آغاز ہوا جس میں  بہت دور آجانے کا مجھے کوئی پچھتاوا نہیں  ہے۔ 

 

 

 
 

تانیثیتی ورکشاپ کے شرکا

 میں  تمام عمر انسانی حقوق کی سرگرم رکن رہی ہوں  مگر میرا شعبہ بچوں  کے حقوق  کی ایڈووکیسی تھا جب تکہ تھنک ینگ ویمن جیسے گروپ کا جنم نہ ہوا تھا۔ اگرچہ ہم کوئی طویل عرصے سے جدوجہد میں  شامل نہیں  اور اپنی اس جدوجہد کے ابتدائی دور میں  ہیں  مگر ہم نے اپنی آواز اٹھانے کے لیے کئی بڑے قدم اٹھائے ہیں  اور عالمی سطح پر عورتوں  کے حقوق اور ان کی فلاح کے لیے کام کر رہی ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ہم تمام اپنی روح تک تانیثیتی ہیں  مگر فیمینزم سے لطف اندوز ہونے کے لیے شعور کاایک خاص قسم کی بیداری سے واسطہ پڑنا ضروری ہے۔ ہم میں  سے کچھ خوش قسمت عورتیں  ایسی ہیں  جو مائیں  بلکہ دادیاں  تک بن چکی ہیں  ۔ یہ وہ عورتیں  ہیں  جو مضبوط بھی ہیں  اور اپنے وجود پر نازاں  بھی، جو فیمینزم کی روح کو چھوئے بغیر بھی عورتوں  کے لیے کام کر رہی ہیں  اور کام کر رہی تھیں ۔ لیکن ہم میں  سے کچھ(جیسا کہ میں  ہوا کرتی تھی)تانیثیت پسندی کو ایک عام سے معروف خیال تصور کرتی ہیں  اور بلاخوف یہ کہتی ہیں  کہ ہم تانیثیت پسند ہیں۔

بہت سے نوجوان عورتوں  کے لیے فیمینزم آج بھی بدصورت ، باغیانہ اور سراب جیسا خیال ہے ۔ اس بلاگ پوسٹ کا مقصد اس طرح کی نوجوان عورتوں  کو للکارنا ہے کہ وہ تانیثیت پسندی کی روح اور اس کے حسن کو سمجھیں۔

 

 

صومالیہ اور لندن کی بہنوں  کے ساتھ ساحل پر یوگ
 

یہ بات تسلیم کہ فیمینزم مردوں  کے خلاف کوئی تحریک نہیں  ، یہ آزادی کی جدوجہد بھی نہیں ، یہ کوئی انقلاب بھی نہیں  اور یہ اتنی بری بھی نہیں  جتنی سنائی دیتی ہے۔ فیمینزم تمام بوڑھی اورجوان عورتوں  کے لیے بذات خود حیات ہے۔ یہ ایک طرز زندگی ہے، یہ مردوزن کے درمیان محبت و تعاون کا احیا ہے، یہ ساتھ ملکر کام کرنے کا نام ہے۔ یہ شراکت داری ہے جو اس عہد پر استوار ہے کہ انسانیت اور خاص طور پر نسوانیت کا احترام ہو۔  فیمینزم خواتین کی جدوجہد کو تسلیم کیے جانے کا نام ہے۔ یہ تحریک اس تصور سے آزادی کا نام ہے کہ عورتوں  کو لازماََ مردوں  کا غلام،بچے پیدا کرنے کی مشین، کم تر مخلوق، بے بس اور غیر محفوظ  ہونا چاہیے۔

میں  گیمبیا میں  پلی بڑھی ہوں  ، ایک ایسا معاشرہ جہاں  گہری بنیادی رکھنے والی رسوم و روایات کو احترام دیا جاتا ہے ، چاہے اس کی قیمت انسان ہی کیوں  نہ چکا رہا ہو۔ میں  نے یہ جانا ہے(جیسا آپ سب کو بھی جاننا چاہیے) کہ پدری غلبے کے حامل معاشرے نے ہم سب کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ ہم نے خود کو ایسی رسوم سے نتھی کر لیا ہے جو ثقافتی ہیں  مگر نقصان دہ ہیں  اور جنہیں  یہ کہہ کر تقدس دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارے مذہب کا حصہ ہیں۔

 

 

 آج میں  آپ تمام سے مطالبہ کرتی ہوں  کہ جس مذہب کو آپ مانتی ہیں  اسے جانیں ، اپنے مذہب کا تعلیمات کا مطالعہ کریں ، اور اپنے مذہبی رہنما خود بنیں ، مذہب کی تشریح خود کریں ۔ اپنے مذہب کا دفاع خود کریں  اور خود کو اس قابل بنائیں  کہ مذہب اور قدیم ثقافتوں  رسموں  میں  امتیاز کر سکیں ۔ ہمیں  معلوم ہے کہ ہم کیا ہیں  اور کیسے بنے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم جاگیں ، وقت آگیا ہے کہ مرد ہمیں  اپنا پارٹنر سمجھیں  ، وقت آگیا ہے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھےں  کہ ہم جنس مخالف کے خلاف نہیں  لڑ رہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس بات کو محسوس کیا جائے کہ ہم سے ممکنہ حد تک انسانی رویہ رکھا جا ئے ، وقت آگیا ہے کہ ہم تانیثیت پسند بنیں ۔ 

 
 

حدی ژونگا لیڈر شپ فار ینگ  ویمن ،گیمبیاکی شریک بانی اور مارچ 2014کو گیمبیا کے علاقے بنجل میں  ہوئی ویلڈ لیڈر شپ  ورکشاپ میں  شریک ہوئی تھیں۔