محکم جمہوریت کےلئے عورتوں کی بااختیاری اور اُن کی قیادت

فوجیت کے دور میں انتظام کے ادارے

ڈیٹریا ٹ میں  ایک سفید فام علاقے میں  مدد کے لیے ایک گھر کی طرف قدم بڑھانے پرگولی کا نشانہ بننے والی اس انیس سالہ سیاہ فام لڑکی رینیشا مکبرائڈ اور مریسہ الیگزنڈر جسے اپنے ظالم شوہر کے خلاف اپنے دفاع میں  وارننگ فائر(دیوار پر) کرنے پر بیس سال کے لیے قید میں  ڈال دیا گیا ہے ، کیا ایسی بات ہے جو مشترک ہے۔ یا ریپلک آف کانگو میں  دوران جنگ زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں  اور ان سیکس ورکرز کے درمیان کیا مشترک ہے جو فوجی چھائونیوں  میں  اپنی خدمات مہیا کرتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے جائیں  تو بات تشدد کی سرحد سے نکل کر پیچیدہ اور منہ زورفوجیت یا ملٹرزم تک پہنچتی ہے۔

ملٹرزم کے حوالے سے جب عورتوں  پر تشدد کے بارے میں  بات کی جاتی ہے تو ہمارا فوری رد عمل ہمارے ذہن کے سامنے جنگ کے دنوں  کی وہ وحشیانہ تصویریں  کھینچ دیتا ہے جس میں  سب جائز ہوتا ہے اور جہاں  غیر منطقی قانون کا راج ہوتا ہے۔ جو دماغ میں  آتا ہے وہ منظر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ طالبان ہیں  اور دنیا کی ملالائوں  کے پیچھے بھاگ رہے ہیں  ۔ یا پھر ہزاروں  کی تعداد میں  ریپ کیسوں  سے متعلق اعداد وشمار یا پھر عراق میں  موجود امریک افواج میں  کسی گندے انڈی کی طرف سے عجیب سا ظلم جو کیا گیا۔ تاہم ہمارے نیو لبرل رجعت پسند دور میں  فوجیت صرف علاقوں  پر قبضہ کرنے یا سیاسی اہمیت کے لیے نہیں  بلکہ غلبے کا ایک وسیع تر منصوبہ ہے۔

موجودہ فوجیت ، حربیت یا ملٹرزم کو دیکھیں  تو متعدد حوالوں  سے یہ استعماری اور کلونیل دور کا تسلسل محسوس ہوتی ہے،خاص طور پر اس نقطہ نظر کے حامل شخص کے لیے جو قومی ریاستوں  کو زیادہ وسیع استعماریت کے حامل مظہر کی پیداوار سمجھتا ہو۔ اس وسعت پذیری کے لیے ضروری تھا کہ کچھ خاص قسم کے نظام اور طاقت کے مخصوص ڈھانچے ملکی اور بیرونی سطح  پر قائم ہوتے۔ ان نظاموں  میں  سرمایہ دارانہ نظام، گوروں  کی برتری اور خاص قسم کا پدری غلبے کا حامل ڈھانچہ شامل ہے۔ اس کے نفاذ اور متمدن دنیا کے نظم کو عالمی سطح کی کم تر ’اکثریت‘ پر تھوپنے کے لیے ، وسیع پیمانے پر تشدد روا رکھا گیا ، اور عورتوں  کے خلاف منظم تشدد کی بھی یقینا اس میں  گنجائش رکھی گئی۔

اگرچہ عموماََ اسے علیحدہ تصور کر لیا جاتا ہے مگر داخلی اور عالمی سرحدیں  ایک دوسرے پر حد سے زیادہ منحصر ہوتی ہیں ۔ مگر مندرجہ بالا پروجیکٹ میں  تشدد کی جو مرکزیت ہے وہ خود تشدد سے زیادہ کوئی چیز ہے۔ یہ انسانی نظم اور انسانی زندگی اور اس کی اقدار کو ادارہ جاتی بنیادوں  پر قائم کرنے کی کوشش ہے کہ جیسے فوج یا معاشی پالیسیاں  یا توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ 

غالبا امریکہ کی استعماری طاقت فوجیت اور اس میں  تشدد کے مقام کے درمیان تعلق کی نمایاں  مثال ہے۔ امریکی غلبے نے داخلی سطح پر اپنی ریاستوں  میں  داخلی نفاذ قانون کے حوالے سے فوجیت کو لاگو کیا، ملٹری ٹیکنالوجی کے استعمال میں  اضافہ کیا، عملہ ، سامان اور معلومات کا تبادلہ، خفیہ پولیس کا ایک ادارہ جاتی کلچر بنایا جو صرف عوامی اداروں  (جیسا کہ فلاح، سکول، ہسپتال اور یونیورسٹیاں ) بلکہ کارپوریٹ کلچر اور نجی اداروں  تک پھیلا ہوا ہے۔ مزید براں  مختلف گروہوں  کی نگرانی اور نظم و ضبط کو قائم رکھنے کا عمل بھی فوجیت زدہ کر دیا جیسے پولیس اور مہاجروں  کے لیے فوجی تکنیکوں  کا استعمال، جیل خانے یا دہشت گرد کے خلاف جنگ جن کا نشانہ بے چارے غریب اور مسلم عوام بنے جن کو جیل میں  رکھ کر انہیں  خوفزدہ کیا گیا۔ان تمام مظاہر کا امریکی فوجی غلبے کی حامل نفسیات پر گہرا اثر پڑا ہے، نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ مستقل حالت جنگ میں  رہتا ہے۔

اب دیکھیں  کہ رینیشا میکبرائڈ یا مریسہ الیگزنڈر اس فوجیت زدہ منظر نامے میں  عورتوں  کے خلاف تشدد کی دیگر مثالوں  سے جڑی ہیں ۔ اسے سادہ انداز میں  دیکھتے ہیں ۔ فوجیت ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو اداروں  کو تشدد کے ذریعے منضبط رکھتا ہے۔ اسے ریاستی پروجیکٹ بھی کہا جا سکتا ہے جو داخلی اور بیرونی سطح پر طاقتور اداروں  کے قیام کے لیے خاص قسم کے نسل زدہ، صنف زدہ اور جنس زدہ ادارے پیدا کرتی ہے اور انہیں  کنٹرول میں  رکھتی ہے۔

مثال کے طور پر نائن الیون کے بعد جو لفظ ’دہشت گرد‘ تخلیق کیا گیا وہ واضح طور پر نسل زدہ ، صنف زدہ اور جنس زدہ ہے ۔ ’وہ‘ نہ صرف غیر مہذب(اور تہذیب مخالف) ہے بلکہ جنسی طور پر گمراہ اور بعض مثالوں  میں  نسوانی اور منحرف ہم جنس پرست ہے۔ ایک اور دفعہ یہی کام مسلم خواتین کے پردہ کرنے کے حوالے سے کیا گیا۔ یہ تصاویر کن لوگوں  نے تخلیق کیں  جو امریکہ کے وفادار اور محب وطن شہری ہیں  جو عموماََجنسی تعلق کے حوالے سے نارمل، سفید فام اور مرد ہوتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں  جو اندرونی اور بیرونی دشمن تخلیق بھی کرتے ہیں  اور انہیں  جائز دشمن بھی قرار دلواتے ہیں۔

جنگ کو نسل زدہ اور مردانہ نوعیت کی سرگرمی ظاہر کرنے کے لیے دیگر مثالیں  بھی دی جا سکتی ہیں  جیسے ابو غریب۔ جہاں  سفید فام عورتیں  اپنے مرد ہم منصبوں  کے ساتھ ملکر رنگدار مردوں  سے زیادتی کرتی رہی ہیں  ، ان عورتوں  نے صرف یہ کہ تشدد کیا بلکہ مخصوص جنس زدہ ، صنف زدہ اور نسل زدہ طاقتی رشتوں  کا سیٹ بھی نافذ کیا۔یہی کچھ خواتین اور مرد ہم جنس پرستوں  اور بائی سیکسوئلز کے حوالے سے بھی کیا گیا جنہیں  فوج میں  اس خوف سے بھرتی نہیں  کیا جاتا کہ یہ مورال، ڈسپلن، نظم و ضبط، فوجی یونٹوں  میں  اتحاد کے لیے نقصان دہ ہوگا جس سے جوانوں  کی فوجی صلاحیت پر برا اثر پڑ سکتا ہے ان لوگوں  کے حوالے سے پالیسی ہے کہ کچھ مت پوچھو، کچھ مت بتائو اور یہ پالیسی آج بھی جاری ہے۔

رینیشا میکبرائڈ کو 80فیصد سیاہ فاموں  کے علاقے ڈیٹریاٹ کی اس مضافاتی بستی میں  جہاں 86فیصد گورے رہتے ہیں  مار دیا گیا۔ مریسہ الیگزینڈر کو حق حیات کا دفاع کرنے کا حق دینے سے انکار کر دیا گیا اور اسے 20سال کے لیے نذر زنداں  کر دیا گیا حالانکہ وہ گھریلو تشدد اور جنگوں  میں  بڑے پیمانے پر ہونے والے ریپ کے واقعات کے خلا ف لڑ رہی تھی۔ یہ واقعات یاد دہانی ہیں   کہ جنگ اور بعد از جنگ کہ صنف زدہ توقعات سے متعلق اور بیرونی افواج کی کسی ملک میں  موجودگی سیکس انڈسٹری اور ٹریفکنگ کو بڑے پیمانے پر پھیلانے اور مدد کرنے کا سب بنتی ہے۔ بلاشبہ ان ممالک میں  بھی عورتوں  کے خلا ف تشدد کا عنصر موجود ہے جہاں  فوجیت نہیں  ہے تاہم یہ وہ پروجیکٹ ہے جو غلبے کے نظام کی تولید کرتا ہے جبکہ تشدد اس کے لازمی عنصر کے طور پر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ ایسے منظر کو تخلیق کرتا ہے جس میں  غلبہ مرکزی رہتا ہے، اور جس میں  غیر محفوظ اور بھی غیر محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ اور یہ اس دنیا میں  ہورہا ہے جہاں  مفروضہ طور پر کہا جا تا ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت ہے کہ ہم مساوی شہریت اور عالمی انسانی حقوق کے لیے لڑ اور انہیں  حاصل کر سکتے ہیں۔

جب خواتین سرگرم کارکنان عالمی سطح پر ڈی ملٹرائزیشن کی بات کرتی ہیں  تو اس کا مطلب یہ نہیں  ہوتا کہ وہ امن اور جنگ کا خاتمہ چاہ رہی ہیں  بلکہ اہم بات یہ ہے کہ وہ منظم تشدد کی اجازت دینے والے نظاموں  اور ڈھانچوں  کا خاتمہ چاہتی ہیں ۔ ڈی ملٹرائزڈ دنیا کیسی ہوگی؟ اس انصاف اور مساوات کے بالکل قریب جس کے بارے میں  ہمیں  کبھی پتہ نہیں  چل سکا۔

 

Hana Riaz is a queer (politically) black Muslim feminist, a British South Asian woman, writer, and blogger

حنا ریاض جنوبی ایشیا کی برطانوی نژاد ، سیاہ فام تانیثیتی لیڈر، مصنفہ اور بلاگر ہیں

This blog series is an initiative of the Stop Stoning Women Campaign hosted by WLUML - campaigning to bring an end to Stoning.